PMLN Archive

Tuesday 8 December 2015

قائداعظمؒ کی تصویر کو دیکھ کر صرف ایک بار سوچ لیا کریں... حاجی محمد عارف


لیڈر کے ہر عمل میں کوئی نا کوئی راز چھپا ہوتا ہے اور اُس کی ہر بات سے دور اندیشی جھلکتی ہے۔ اُس کی زندگی آنے والی نسلوں کیلئے مثال ہے کہ وہ اُس سے رہنمائی پائیں۔ اپنی زندگیوں کو بہتر انداز میں گذارنے کے لیے اُس کی حیات سے فیض طلب کریں۔ جب کوئی اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ لوگ اُس کی پیروی کرنے لگیں تو پھر اُس کی زندگی اُس کی نہیں رہتی وہ نسلوں کی امانت بن جاتی ہے۔
ایسے ہی ایک عظیم انسان کو دنیا ’’محمد علی جناح‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ تاریخ اُنہیں قائداعظم اور بیسویں صدی کے عظیم ترین انسان جیسے خطابات سے نواز چکی ہے۔ قائداعظم کتنے بڑے انسان تھے یہ جاننے کے لیے ہم اُن کی زندگی کے کچھ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس ملک کے حکمران جب کہیں سے گزرتے ہیں تو اُن کے ساتھ گاڑیوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے۔ ساری ٹریفک کو روک کر اُنہیں راستہ دیا جاتا ہے۔ کوئی مرتا ہے تو مرجائے اِس کی کسی کو کوئی پروا نہیں، حکمرانوں کے ان رویوں سے لوگوں کا قانون پر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ قانون چند امیر لوگوں نے اس غرض سے بنایا ہے کہ وہ غریبوں کو خود سے دور رکھ سکیں اور اس میں اتنی رعایت بھی رکھی ہے کہ ضرورت پڑنے پر خود کو اس کی پکڑ سے بچا سکیں۔ یہاں قائداعظمؒ کی زندگی کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
ریل گاڑی کے گزرنے کا وقت ہے اور پھاٹک بند ہے۔ سڑک پر گاڑیوں کا بہت رش ہے۔ قائداعظم ؒ کی گاڑی وہاں جا کر رکتی ہے اے ڈی سی گاڑی سے باہر نکلتا ہے اور پھاٹک پر موجود نگران سے کہتا ہے۔
’’ تمہیں معلوم نہیں گاڑی میں قائداعظم بیٹھے ہیں۔ جلدی سے پھاٹک کھول دو‘‘۔
نگراں سنتے ہی پھاٹک کھول دیتا ہے۔ قائداعظم ؒ کو اس کا علم ہوتا ہے تو وہ اے ڈی سی کو گاڑی میں طلب کرتے ہیں اور اُسے حکم دیتے ہیں کہ اسی وقت جاؤ اور پھاٹک بند کراؤ۔ اے ڈی سی کہتا ہے، سر! ابھی ریل گاڑی کے گذرنے میں کافی وقت ہے ہم آسانی سے گزر جائیں گے۔ قائداعظم ؒ یہ سن کر کہتے ہیں،
’’اگر قانون بنانے والے قانون کا احترام نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟‘‘
پھاٹک بند کروا دیا جاتا ہے۔ ریل گاڑی گذرنے کے بعد پھاٹک کھلتا ہے تو قائداعظم کی گاڑی باقی گاڑیوں کے ساتھ گزرتی ہے۔ میں یہاں نصیحتیں کرکے اپنے الفاظ ضائع نہیں کروں گا، صرف اتنا کہوں گا کہ اپنے دفتر میں لٹکتی ہوئی قائداعظمؒ کی تصویر کو دیکھ کر صرف ایک بار سوچ لیا کریں کہ اس عظیم انسان نے ملک کے لیے کیا کیا اور میں کیا کر رہا ہوں؟

No comments:

Post a Comment